صدقہ بن مرد اس نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انطاکیہ(ترکی) کے مضافات میں، میں نے ایک اونچی جگہ پر تین قبریں دیکھیں ان میں ایک قبر پر یہ شعر لکھا تھا ۔
زندگی سے وہ شخص کیا لذت حاصل کر سکتا ہے جو یہ جانتا ہو کہ خداوند عالم اس سے ضرور بازپرس کرے گا۔
اور اس سے بندوں کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں کا بدلہ لے گا اور جو بھلائیاں اس نے کی ہیں اس کی جزاء دے گا۔
دوسری قبر پر لکھا تھا۔
کیا لذت پائے گا وہ جو یقین رکھتا ہو اس بات پر کہ اس پر موت اچانک آہی جائے گی۔
اس کی ساری بڑائی اور ملک چھین لے گی اور اس گھر میں ملائے گی جس کا وہ مستحق ہے۔
تیسری قبر پر لکھا تھا۔
کیسے مزے لوٹے گا وہ جس کا رخ ایسی منزل کی طرف ہے کہ جس پراترنا جوانوں کو بوڑھا کر دیتا ہے۔
جو چہرے کے نقوش کو بہت جلد مٹا دیتا ہے اور جس کے جوڑبوسیدہ ہو جائیں گے۔
یہ تینوں قبریں ایک صف میں کوہان کی شکل میں بنی ہوئی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ میں ایک بوڑھے کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔اور اس سے کہا:میں نے تمہاری بستی میں ایک عجیب بات دیکھی۔ اس نے کہا کیا دیکھا؟میں نے واقعہ بیان کیاتو اس بوڑھے شخص نے کہا کہ ان کا قصہ اس سے زیادہ تعجب خیز ہے جو تم نے ان کی قبروں پر دیکھا۔ میں نے کہا سناؤ کیا ہے۔
اس نے کہا یہ تین بھائی تھے ان میں سے ایک بڑا عہدیدار تھا جو بادشاہ کے ساتھ رہتا تھا اور شہروں اور لشکروں کے انتظام پر مامور تھا۔ دوسرا ایک مالدار تاجر تھا وہ بھی بادشاہ کے خاص لوگوں میں سے تھا۔ تیسرا ایک عبادت گزار شخص تھا جو عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کئے ہوئے تھا۔
اس عبادت گزار کی موت قریب آئی تو اس کے بھائی اس کے پاس جمع ہو گئے اور وہ سلطان کا مصاحب ہمارے علاقوں کا والی تھا عبدالملک بن مروان نے اس کو والی بنایا تھا اور وہ ایک ظالم، جابر اور لٹیرا تھا۔ یہ دونوں اپنے عابد بھائی کے پاس آئے جب اس کا آخری وقت تھا دونوں نے اس عابد بھائی سے کہا کہ کچھ وصیت کر لو اس نے کہا اللہ کی قسم میرا کوئی مال نہیں ہے کہ میں کچھ وصیت کروں، نہ میرا کسی پر قرض ہے جس کے لینے کی وصیت کروں اور میں نے دنیا میں کوئی چیز نہیں چھوڑی جس کے لوٹنے کا اندیشہ ہو۔
عہدیدار بھائی نے کہا!اے میرے بھائی یہ میرا مال تیرے سامنے ہے اس میں جو چاہے کہو اور جو دل چاہے وصیت کرو، اس نے رخ پھیردیا۔
تاجر بھائی نے کہا! میرے بھائی تجھے میری کمائی اور کثرت دولت کا پتہ ہے، شاید تیرے دل میں کسی بھلائی کا ارمان رہ گیا ہو جس کو مال خرچ کئے بغیر حاصل نہ کیا جا سکتا ہو، یہ میرا مال ہے اس میں جو چاہو حکم کرو اس کو پورا کروں گا۔
وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا مجھے تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن میں صرف ایک اقرار تم سے لیتا ہوں جس میں تم وعدہ خلافی نہ کرنا۔ انہوں نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا جب میں مر جاؤں تو مجھے غسل دو اور کفن پہنا کر ایک اونچی زمین میں دفن کر دو اور میری قبر پہ لکھ دینا۔
زندگی سے وہ شخص کیا مزہ لے سکتا ہے جو یہ جانتا ہو کہ خداوند عالم اس سے بازپرس کرےگا اوراس سے بندوں کے ساتھ نا انصافی کا بدلہ لے گا اور نیکیوں کی جزا دے گا۔
جب یہ کام کر دو تو روزانہ میری قبر پہ آیا کرنا شاید تمہیں نصیحت نصیب ہو۔ انہوں نے اس کی موت کے بعد ایسا ہی کیا اور اس کا عہدیدار بھائی اپنے لشکر کے ساتھ قبر پہ آتا اور اُتر کر ان اشعار کو پڑھتا اور روتا۔ جب تیسرا دن ہوا تو لشکر کے ساتھ حسبِ معمول آیا اور اُتر کر رونے لگا، پھر جب واپسی کا ارادہ کیا تو اس نے قبر کے اندر سے دھڑام کی آواز سنی، قریب تھا کہ اس کا دل اس سے پھٹ جاتا، چنانچہ وہ گھبراہٹ اور خوف کے ساتھ واپس ہوا۔
جب رات ہوئی تو اس نے اپنے بھائی کو خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا، اے میرے بھائی! تمہاری قبر سے جو آواز سنی وہ کیا تھی؟ اس نے کہا وہ ہتھوڑے کی آواز تھی ،مجھے کہا گیا کہ تو نے مظلوم کو دیکھا پھر بھی اس کی مدد نہ کی۔
چنانچہ وہ شخص صبح غمزدہ اٹھا اور اپنے بھائی کو اور دوسرے خاص لوگوں کو بلایا اور کہا! میں سمجھتا ہوں کہ میرے بھائی نے جو اپنی قبر پر اشعار لکھنے کی وصیت کی تھی اس کا مقصد مجھے تنبیہ کرنا تھا اور میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ آئندہ میں تمہاری درمیان نہیں رہوں گا چنانچہ اس نے عمارت چھوڑ دی اور عبادت میں مشغول ہو گیا اور عبدالملک بن مروان کو اس بارے میں خط لکھا تو اس نے لوگوں کو حکم دیا اس کو چھوڑ دو جہاں چاہے جائے۔
چنانچہ وہ پہاڑوں اور صحراؤں میں رہتا رہا یہاں تک کہ اس کی موت آئی اور وہ چرواہوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا۔ اس کے بھائی کو خبر پہنچی تو وہ حاضر ہو گیا اور کہا اے میرے بھائی! کوئی وصیت نہیں کرنی ؟ اس نے کہا کیا وصیت ہے کوئی مال نہیں جس میں وصیت کروں لیکن ایک وعدہ ہے وہ یہ ہے کہ جب میں مر جاؤں تو میری قبر تیار کر کے مجھے میرے بھائی کے پہلو میں دفنا دینا اور میری قبر پر لکھ دینا۔
کیسے لزت پائے وہ شخص جس کو یقین ہو کہ بہت جلد اس پر موت اچانک آجائے گی اور اس سے عظیم ملک اور تمام بڑائی چھین کراس قبر میں اس کو ٹھہرا آئے گی جس کا ہو باسی ہو گا۔
پھر تین دن تک میرے پاس آیا کرنا اور میرے لیے دعا کرنا شاید اللہ تعالی مجھ پر رحم فرمائے۔
چنانچہ وہ مر گیا اور اس کے بھائی نے اس کی وصیت پر عمل کیا جب اس کی قبر پر تیسرے دن آیا،دعا کی اور رویا پھر جب واپس ہونے لگا تو اس نے ایک شدید آواز سنی جس سے اس کی عقل زائل ہونے کے قریب ہو گئی اور وہ وہاں سے بے چین ہو کر لوٹا۔
رات کو اس نے اپنے بھائی کو خواب میں دیکھا اس نے کہا میں نے جب خواب میں اپنے بھائی کو دیکھا تو اس کی طرف لپکا اور اس سے پوچھا کیا تم ہماری ملاقات کے لیے آئے ہو؟ اس نے کہا ملاقات تو بہت ہی دور ہے میں نے کہا میرے بھائی تیرا کیا حال ہے؟ اس نے کہا خیریت سے ہوں، توبہ کتنی خوبیوں اور بھلائیوں کی جامع ہے۔ میں نے کہا میرا دوسرا بھائی کیسا ہے؟ اس نے کہا وہ تو نیک پیشواؤں کے ساتھ ہے۔ میں نے کہا ہمارا کیا حال ہوگا؟ اس نے کہا جس نے دنیا و آخرت کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ دیکھ لے گا۔ بس تم اپنی مالداری کو فقیری سے پہلے غنیمت سمجھو۔
راوی کا بیان ہے کہ اس نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی اپنے مال کو تقسیم کیا جائیداد بانٹ دی اور اللہ تعالی کی عبادت میں لگ گیا۔
اس کا ایک بیٹا بڑا ہو کر ایک خوبصورت اور باکمال نوجوان بنا اور تجارت شروع کی یہاں تک کہ تجارت میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ اس کے باپ کی موت قریب آئی تو اس نے اپنے باپ سے کہا! ابا جان وصیت نہیں کرتے؟ اس نے کہا اے میرے بیٹے! تیرے باپ کا کوئی مال ہی نہیں جس میں وصیت کرے لیکن میں تجھ سے ایک وعدہ لیتا ہوں کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے اپنے چچوں کے ساتھ دفنا دینا اور میرے قبر پر یہ شعر لکھ دینا۔
کیسے مزے لے سکے گا زندگی سے وہ جس کا رخ ایسی قبر کی طرف ہو جس کی گھاٹ نوجوانوں کو بوڑھا کر دیتی ہے اور چہرے کا رنگ اڑا دیتی ہے اور جلدی جلدی جسم اور جوڑوں کو بوسیدہ کر دیتی ہے۔
جب یہ کرو تو اس کے بعد تین دن تک تم میرے پاس آ جایا کرنا اور میرے لیے دعا کرنا۔ اس نوجوان نے وصیت پر عمل کیا۔ جب تیسرا دن ہوا تو اس نے ایک آواز سنی جس سے اس کی جلد سکڑ گئی اور رنگ اڑ گیا اور بخار چڑھ گیا اور وہ واپس گھر آگیا۔
رات کو خواب میں اس کا باپ آیا اور کہنے لگا میرے بیٹے! تم ہمارے پاس آنے سے نزدیک ہو اور موت قریب تر ہے بس تم اپنے سفر کی تیاری کر لو اور کوچ کا بندوبست کرو اور اپنے سامان اس گھر سے باندھ لو جس سے تمہیں نکلنا ہے اس گھر کی طرف جس میں تمہیں جانا ہے اور دھوکے میں نہ رہو کہ لمبی لمبی امیدیں لگا ،کے جیسے تم سے پہلے لوگ دھوکے میں رہے اور اپنی آخرت کے معاملے میں کوتاہی کی، نتیجہ موت کے وقت ان کو شاید ندامت لاحق ہوئی اور عمر کی بربادی پر کف افسوس ملتے رہے۔ چنانچہ نہ ان کو افسوس نے کچھ فائدہ پہنچایا اور نہ ہی کوتاہیوں پر شدمندگی نے ان کو اس شر سے نجات دلائی جس کا سامنا وہ کریں گے، قیامت کے دن اپنے بادشاہ کی طرف سے۔ اے میرے بیٹے جلدی کرو۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔جلدی کرو۔۔۔
عبداللہ بن صدقہ کہتے ہیں کہ جس بوڑھے نے واقعہ سنایا اس نے بتایا کہ جس رات کو اس نوجوان نے یہ خواب دیکھا صبح کو میں اس کے پاس گیا تو اس نے وہ خواب ہمیں سنایا اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ بات ایسی ہی ہے جیسے میرے باپ نے کہی اور میں سمجھتا ہوں کہ موت میرے سر پر منڈلا رہی ہے۔ رشتہ داروں اور لین دین والوں سے معاملہ صاف کیا اور سلام کہا اور لوگوں سے الوداع کہا، لوگوں نے اسے الوداع کہا جیسے کسی کو کسی چیز سے ڈرایا گیا ہو اور اس کو اس کی توقع بھی ہو۔
وہ کہتا تھا کہ میرے باپ نے کہا جلدی کر جلدی کر جلدی کر ان تینوں سے مراد یہ تین لمحات ہیں تو وہ گزرے لہذا وہ نہیں ہیں اگر تین دن ہوں تو وہ کیسے گزریں گے اور یا تین مہینے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت تک زندہ رہوں گا یا تین سال ہیں اور یہ تینوں مہینوں سے بھی زائد ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ ان سے مراد سال ہو۔
چنانچہ وہ تین دن تک بخشتا رہا اور صدقہ کرتا رہا جب اس خواب کو تیسرا دن ہوا تو اس نے صبح سویرے اپنے اہل و عیال کو جمع کیا اور ان کو الوداع کہا اور سلام کہا پھر قبلہ رخ ہو کر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں اور کلمہ شہادت بڑھا اور وفات پا گیا۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک لوگ گاہے بگاہے اس کی قبر پر دور دراز سے آتے تھے اور اس کے لیے دعا کرتے تھے۔
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بے شک جو سچے دل کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی دعا کو قبول فرماتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کریں اور اسی سے مانگتے رہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس واقعے سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔