jannat-ki-hoor-aur-ek-mujahid-naujawan-ka-hairat-angez-waqia
Sabaq Amoz Waqiat

Jannat Ki Hoor Aur Ek Mujahid Naujawan Ka Hairat-angez Waqia

مدینہ منورہ میں ایک شخص تھا جو ابوقدامہ شامی کے نام سے معروف و مشہور تھا۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے دل میں جہاد کی محبت خوب ڈال رکھی تھی۔ چنانچہ وہ اکثر و بیشتر رومیوں سے لڑنے اور جہاد کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ مسجدِ نبویﷺ میں  بیٹھا ہوا تھااورلوگوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے کہا کہ واقعاتِ جہاد میں سے جو سب سے تعجب انگیز واقعہ آپ نے دیکھا ہو وہ ہمیں سنا دیجئے۔ شیخ ابو قدامہ نے فرمایا کہ سنو۔

میرا ایک دفعہ ’’رقہ‘‘ جانا ہوا، تاکہ کوئی اونٹ خریدلوں، جو ہمارے اسلحہ کے اٹھانے اور لے جانے کے کام آئے۔ چنانچہ میں ایک دن دریائے فرات کے قریب رقہ نامی اس شہر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک عورت آئی اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے ابو قدامہ! میں نے آپ کے متعلق سنا ہے کہ آپ جہاد پر وعظ کہتے ہیں اورلوگوں کو جہاد کی ترغیب دیتے ہیں۔ میں ایک ایسی عورت ہوں کہ اﷲ نے مجھے لمبے لمبے بالوں سے نوازا ہے۔ میں نے اپنے اُکھڑے ہوئے بالوں سے ایک رسی بنا لی ہے اور اس پر میں نے مٹی مل لی ہے تاکہ بالوں کی بے پردگی نہ ہو۔ آپ اس رسی کو لیجئے اور جب دشمن کی سرزمین پر پہنچ جائیں اور گھمسان کی لڑائی شروع ہو جائے، تلوار ٹکرانے لگیں، تیر پھینکے جانے لگیں اور نیزے سانپوں کی طرح باہر نکل آئیں تو آپ اس رسی کو اپنے جہادی گھوڑے کے گلے میں ڈال دیں اور اس سے جہاد کریں۔ اگر آپ کو خود ضرورت نہ پڑے تو کسی ضرورت مند مجاہد کو دیجئے۔ میں اس عمل سے یہ چاہتی ہوں کہ میدان جنگ کا گرد و غبار میرے بالوں کو لگ جائے ۔

میں ایک بیوہ عورت ہوں میرا شوہر جہاد میں شہید ہو چکا ہے اور میرا خاندان بھی جہاد میں شہید ہو گیا ہے اگر مجھ پر جہاد فرض ہوتا تو میں خود چلی جاتی لہٰذا میری جگہ آپ میرے ان بالوں کو جہاد میں استعمال کریں۔ پھر اس عورت نے کہا اے ابو قدامہ! یہ بات بھی سن لو کہ جب میرا شوہر شہید ہو گیا تھا تو اس نے اپنے پیچھے ایک خوبصورت لڑکا چھوڑا تھا اس لڑکے نے قرآن کریم حفظ کر لیا ہے اور جہاد ی ٹریننگ کر کے گھڑ سواری میں خوب مہارت حاصل کر لی ہےاوروہ تیر اندازی میں غضب کا ماہر ہے وہ رات بھر تہجد پڑھتا ہے اور دن بھر روزہ رکھتا ہے اس وقت وہ جوان ہے اور اس کی عمر 15 سال ہے آج کل وہ اپنی زمینوں میں کام کے لیے گیا ہوا ہے جب وہ واپس آ جائے گا اور آپ یہاں موجود ہوں گے تو میں اس جوان سال بیٹے کو اﷲ تعالیٰ کے راستے جہاد میں اﷲ کی رضا کے لیے بطور ’’قربانی‘‘ پیش کروں گی۔ میں آپ کو دین اسلام کی عزت و عظمت کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ مجھے اس ثواب سے محروم نہ کیجئے گا۔

میں نے اس عورت سے وہ رسی جو اس نے اپنے بالوں سے بنائی تھی لے لی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ آپ میرے سامنے اس رسی کو اپنے سامان میں محفوظ کر کے رکھیں تاکہ مجھے تسلی ہو جائے۔

میں نے رسی کو محفوظ کر کے رکھا اور رقہ سے اپنے ساتھیوں سمیت نکلنے لگا۔

جب ہم مسلمہ بن عبدالملک کے قلعہ کے پاس پہنچے تو پیچھے سے ایک شہسوار کی چیخنے کی آواز آئی جو کہہ رہا تھا اے ابوقدامہ! خدا کے لیے ذرا رُک جائیے۔ ہم رک گئے جب ہم نے دیکھا تو ایک شہسوار گھوڑے کو کداتا ہوا آرہا ہے۔ آتے ہی اس نے مجھ سے معانقہ کیا اور پھر فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے آپ کی رفاقت سے محروم نہیں کیا میں نے اس سے کہا کہ پیارے بیٹے! آپ ذرا چہرہ دکھا دیجئے تاکہ میں دیکھوں اگر آپ پر جہاد لازم اور فرض ہو تو میں آپ کو اجازت دے دوں گا ورنہ میں آپ کو واپس کر دوں گا۔ جب اس نے چہرہ ظاہر کیا تو چودھویں کے چاند کی طرح ایک خوبصورت ناز پرورده نو عمر جوان تھا میں نے اس سے کہا کہ بیٹے! آپ کا والد زندہ ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں وہ شہید ہو چکے ہیں اور اسی کا بدلہ لینے کے لیے جا رہا ہوں شاید کہ اللہ مجھے بھی شہادت نصیب فرمائے میں نے کہا کیا آپ کی والدہ ہے؟ تو کہنے لگا ہاں والدہ حیات ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ جا کر اپنی والدہ سے اجازت لے لو اگر اس نے اجازت دے دی تو ٹھیک ورنہ آپ ان کے پاس ہی رہو کیونکہ جنت ماں کے پاؤں تلے ہے۔ اس نوجوان نے کہا اے ابو قدامہ! کیا آپ مجھے نہیں جانتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگا کہ میں تو اسی عورت کا بیٹا ہوں جس نے آپ کے پاس سر کے بال کی رسی رکھی ہے آپ اتنی جلدی بھول گئے؟

میں انشاءاللہ شہید ابن شہید بنوں گا۔ میں اللہ تعالیٰ کے واسطہ سے آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے اپنے ساتھ جہاد میں جانے سے نہ روکیں۔ میں کتاب اللہ کا حافظ ہوں اور سنت رسول ﷺ کا عالم ہوں۔ میں تیر اندازی اور گھڑ سواری کا اتنا ماہر ہوں کہ میرے علاقے میں میرے جیسا کوئی نہیں۔ لہذا آپ مجھے چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔ میری والدہ نے مجھے قسم کھائی ہے کہ میں زندہ واپس نہ لوٹ آؤں۔ والدہ نے فرمایا ہے کہ اے میرے بیٹے! جب کفار سے جنگ ہو تو تم پشت نہ دکھانا۔ اللہ کے راستے میں اپنی جان اللہ کے حوالے کر دینا اور جنت میں اللہ تعالیٰ کے پڑوس اور پھر اپنے والد کے پڑوس کی دعا مانگنا۔

جب اللہ تعالیٰ نے تم کو شہادت نصیب کی تو تم میری شفاعت بھی کرنا کیونکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہید اپنے خاندان کے 70 آدمیوں کی شفاعت کرے گا۔ یہ کہہ کر امی جان نے مجھے سینے سے لگایا اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کراس طرح دعا مانگی، اے میرے مولا! اے میرے آقا! یہ میرا بیٹا ہے میرے دل کا پھل اور میرے جسم کا پھول ہے میں نے اس کو تیری خدمت میں پیش کر دیا ہے اس کو قبول فرما لیجئے۔

شیخ ابو قدامہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اس لڑکے کی یہ گفتگو سنی تو میں بہت رویا ،خاص کر اس وجہ سے کہ یہ نو عمر اور نہایت خوبصورت نوجوان تھا اور اس وجہ سے بھی کہ اس کی والدہ کے دل پر کیا گزرے گی اور اس کے صبر پر بھی رویا۔ اس لڑکے نے کہا اے چچا جان! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ اگر میری صغر سنی پر رو رہے ہیں تو یاد رکھیے کہ مجھ سے چھوٹوں کو بھی اللہ تعالیٰ نافرمانی پر عذاب دیتا ہے۔ میں نے کہا کہ تیری والدہ کی وجہ سے رونا آتا ہے وہ بیچاری تیرے بعد کیا کرے گی۔

خیر !ہم آگے بڑھتے چلے گئے رات کو سفر مکمل ہوا اور صبح روشن ہو گئی، لڑکا مسلسل اللہ کے ذکر میں لگا ہوا تھا میں نے جب غور سے دیکھا تو یہ لڑکا سب سے زیادہ گھڑ سواری میں ماہر تھا اور سب سے زیادہ خدمت گزار بھی تھا جتنا ہم دشمن کے قریب ہوتے جاتے یہ لڑکا اتنا ہی چست بنتا جاتا تھا۔ دوسرے روز دن بھر سفر ہوا اور غروبِ آفتاب کے وقت ہم کفار کے علاقے میں پہنچ گئے۔ ہم نے وہیں پڑاؤ ڈال دیا ہم سب روزے سے تھے چنانچہ اس نوجوان لڑکے نے ہماری افطاری کا انتظام کیا وہ افطاری کی تیاری میں لگا ہوا تھا کہ نیند اس پر غالب آئی اور وہ سو گیا۔ سوتے میں ہم نے دیکھا کہ وہ نوجوان مسکرا رہا ہے میں نے ساتھیوں سے کہا کہ بھائیو! ذرا دیکھو یہ نوجوان کیسے مسکرا رہا ہے۔ جب لڑکا نیند سے بیدار ہوا تو میں نے اس سے کہا کہ پیارے بیٹے! ہم نے آپ کو ابھی ابھی ہنستے ہوئے دیکھا ہے ذرا بتائیے کیا وجہ تھی؟ تم نیند کی حالت میں کیسے ہنس رہے تھے ؟

نوجوان نے کہا کہ میں نے ایک عجیب خواب دیکھا تھا اس کی وجہ سے میں ہنسنے لگا تھا۔ خواب میں یہ کہ گویا میں ایک سرسبز وشا داب پرکشش باغیچہ میں ہوں۔ میں اس میں گھوم رہا تھا اور لطف اٹھا رہا تھا اچانک میں نے وہاں ایک عالی شان محل دیکھا جو چاندی جواہرات اور موتیوں سے بنا ہوا تھا۔ اس کے دروازے سونے کے تھے اور اس پر سلیقے سے پردے آویزاں تھے اچانک ان پردوں کو کچھ لڑکیوں نے دروازے سے ہٹایا وہ لڑکیاں چاند کی طرح چمک رہی تھیں۔ جب انہوں نے مجھے دیکھا تو سب نے خوش آمدید کہا میں نے خواب میں ایک کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا وہ  کہنے لگی کہ جلدی نہ کیجئے ابھی آپ کا وقت نہیں آیا۔ میں نے سنا کہ وہ آپس میں کہہ رہی تھی کہ یہ نوجوان مرضیہ کا شوہر ہے پھر انہوں نے مجھے کہا کہ آپ پر اللہ رحم کرے ذرا اگے بڑھیے۔ میں کچھ آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس محل میں ایک کمرہ ہے جو سب سے بلندی پر ہے اور خالص سونے کا بنا ہوا ہے جس میں زبر جد کا بنا ہوا ایک سبز پلنگ بچھا ہوا ہے۔ اس کے پائے سفید اور چمکدار چاندی کے بنے ہوئے ہیں۔ اس پر ایک ایسی خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جس کا چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا اگر اللہ میری نگاہوں کی حفاظت نہ کرتا تو میری نگاہیں چلی جاتی اور میری عقل سلب ہو جاتی۔ جب اس لڑکی نے مجھے دیکھا تو کہا مرحبا مرحبا! آئیے آئیے! خوش آمدید خوش آمدید۔

اے اللہ کے محبوب! آپ میرے لیے ہیں اور میں آپ کے لیے ہوں، میں اس کی طرف بڑھنے لگا تو وہ کہنے لگی کہ نہیں نہیں ابھی وقت نہیں آیا۔ ہاں کل ظہر کے وقت کا وعدہ ہے مبارک ہو مبارک ہو۔

شیخ ابو قدامہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس لڑکے سے کہا کہ آپ نے کیا اچھا خواب دیکھا ہے۔ رات بھر ہم اس نوجوان کے اس خواب پر تعجب کر رہے تھے۔ جب صبح ہوئی تو ہم سب گھوڑوں پر سوار ہوئے اور میدان کے لیے تیار ہوئے اتنے میں کسی پکارنے والے نے پکارا ۔

اے اللہ تعالیٰ کے شہسوارو اور اس کے دین کے مددگارو! سوار ہو کر چلو اور جنت کی طرف بڑھو تم ہلکے ہو یا بوجھل جلدی نکلو، جو نہی یہ آواز ختم ہوئی تو لشکر کفار نمودار ہوا۔ اللہ اس کو ذلیل کرے وہ تو ٹڈی دل لشکر  تھا جو چاروں طرف پھیل چکا تھا ۔

ہم میں سب سے پہلے اس نوجوان نے لشکر کفار پر ایسا حملہ کیا کہ ان میں اندر تک گھستا چلا گیا اس نے کفار کے جمگھٹے کو تتر بتر کر دیا اور بیچ میں جا کر لشکرِ کفار کو تہس نہس کر دیا۔ کئی بہادروں کو اس نے موت کے گھاٹ اتارا اور کئی کفار کو زمین پر پچھاڑ دیا ۔

میں نے جب اس لڑکے کے اس طرح تابڑ توڑ حملوں کو دیکھا تو میں اس کے پاس گیا اور اس کے گھوڑے کی لگام کو پکڑ کر کہا اے پیارے بیٹے! اب تم واپس ہو جاؤ تم نو عمر ہو جنگی چالوں کا زیادہ تجربہ بھی نہیں، اس نے کہا اے چچا جان! کیا آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی ؟

اے ایمان والو! جب کافروں کے لشکر سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرو۔

اے چچا جان !کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ پیچھے مڑ کر جہنم کا حقدار بنو ں؟

ہم اسی گفتگو میں تھے کہ اچانک کفار نے ہم پر اچانک حملہ کر دیا یہ حملہ اس طرح سخت تھا کہ ہر آدمی اپنی اپنی فکر میں مشغول ہو گیا۔ اس دوران لڑکے اور میری درمیان بھی کفار حائل ہو گئے اور ہم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اس حملے میں مسلمانوں کی بڑی تعداد شہید ہو گئی۔ جب جنگ رک گئی تو نہ زخمیوں کا حساب لگایا جا سکتا تھا اور نہ شہیدوں کا کوئی حساب تھا۔ میں اپنے گھوڑے سمیت شہدا کی لاشوں میں گھومنے لگا ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں اور سیلاب کی طرح خون بہہ رہا تھا۔ شہداء کے چہرے خون اور غبار کی وجہ سے پہچانے نہیں جاتے تھے۔ میں گھوم ہی رہا تھا کہ اچانک ایک کو زمین پر پڑا ہوا دیکھا جو گھوڑوں کے سموں کے نیچے کچلا پڑا تھا اور اس کے چہرے اور جسم پر غبار لگا ہوا تھا اور وہ اپنی آخری سانس میں یہ کہہ رہا تھا۔ 

اے مسلمانو! خدا کے لیے میرے پاس میرے چچا ابوقدامہ کو بھیج دو ۔

میں نے جب اس کی آواز سنی تو اس کے قریب آیا، دیکھا تو وہ اپنے خون کے حوض میں الٹ پلٹ ہو رہا تھا۔ کثرتِ خون اور کثرتِ غبار اور گھوڑوں کے کچلے جانے کی وجہ سے میں اس کو نہیں پہچان سکتا تھا۔ میں نے اس سے کہا، ہاں میں ابو قدامہ ہوں۔ اس پر لڑکے نے کہا کہ چچا جان! رب کعبہ کی قسم خواب کی تعبیر سچی نکلی۔ میں اس کے چہرے پر جھک گیا اور پیشانی پر بوسہ دیا اور اس کے چہرے سے مٹی اور خون اپنی چادر سے صاف کرنے لگا اور کہا کہ اے پیارے بیٹے! مجھے اپنی شفاعت میں قیامت کے روز نہ بھولنا۔ نوجوان نے کہا کہ آپ جیسے محسن کو بھلایا نہیں جا سکتا، آپ اپنی چادر سے میرے خون کو کیوں پہنچتے ہیں میرا اپنا کپڑا زیادہ مناسب ہے کہ اس سے میرا خون پونچا جائے پھر اس نوجوان نے کہا کہ اے چچا جان! یہ خون چھوڑ دیجیے کہ میں اپنے رب کے ساتھ اسی خون میں ملاقات کروں گا۔ خواب میں جس کو میں نے دیکھا تھا وہ سامنے کھڑی ہے اور میری روح نکلنے کے انتظار میں ہے اور مجھ سے کہہ رہی ہے کہ میں مشتاقہ دیدار ہوں جلدی سے میرے پاس آ جائیے ۔

اے چچا جان! میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحیح سالم واپس لوٹا دیا تو آپ میری یہ خون آلود کپڑے میری مسکین اور غمگین والدہ تک پہنچا دیں تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ میں نے ان کی وصیت کو پورا کر دیا ہے اور مشرکین کے مقابلے میں کسی بز دلی سے کام نہیں لیا۔ آپ ان کو میرا سلام پہنچا دیجئے اور ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی ٰنے ان کی قربانی کو قبول کر لیا۔ اے چچا جان! میری ایک چھوٹی سی بہن ہے جس کی عمر 10 سال ہے میں جب بھی گھر سے باہر جاتا تو وہ مجھے رخصت کرتی اور جب بھی گھر پر آتا تو وہ سب سے پہلے مجھے ملتی اور سلام کرتی۔ اس دفعہ جب میں آ رہا تھا تو اس نے مجھے رخصت کرتے وقت کہا کہ بھائی جان جلدی واپس آئیے گا دیر نہ کیجئے گا۔ میری اس بہن سے جب آپ کی ملاقات ہو جائے تو اس سے میرا سلام کہیے گا اور پھر یہ کہنا کہ آپ کا بھائی جان کہتا ہے کہ خدا حافظ قیامت میں ملاقات ہوگی۔ یہ کہہ کر اس نوجوان نے کلمہ شہادت بڑھا اور جان جان آفرین رب العالمین کے حوالہ کر دی۔ ہم نے اس کو انہی کپڑوں میں دفنا دیا اور واپس ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جائے۔

جب ہم اس غزوہ سے فارغ ہو کر واپس رقہ  پہنچے تو میں اس نوجوان کے گھر گیا دیکھا تو اسی نوجوان کی طرح اس کی خوبصورت ننھی منی معصوم بہن دروازہ پر کھڑی ہے اور غزوہ سے واپس لوٹنے والوں سے پوچھ رہی ہے کہ میرے بھائی کو آپ لوگوں نے نہیں دیکھا۔ لوگ جواب دیتے کہ ہم ان کو نہیں جانتے ہیں۔ جب میں اس بچی کی طرف بڑھا تو وہ کہنے لگی کہ چچا جان! آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں جہاد سے لوٹ کر آیا ہوں۔ وہ کہنے لگی کہ میرا بھائی لوٹ کر نہیں آیا؟ یہ کہہ کر وہ چیخ اٹھی اور کہا کہ سب لوگ آ گئے میراپیارا بھائی کیوں نہیں آیا، میں نے اس بچی کے رونے کو قابو کیا اور اس بچی سے کہا کہ اپنی امی جان کو جا کر کہہ دودروازہ پر ابو قدامہ آیا ہے ان سے بات کرو، میری اس گفتگو کو اس خاتون نے سن لیا تو وہ فوراً باہر آئی اور اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔ میں نے ان کو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا اور کہا اے ابو قدامہ! یہ بتائیے کہ آپ خوشخبری لے کر ہمارے پاس آئے ہیں یا غم کی خبر لے کر آئے ہیں؟ میں نے کہا کہ پہلے خوشخبری اور غم کی خبر کی وضاحت کریں تو اس نے کہا اگر میرا بیٹا صحیح سالم واپس آگیا ہے تو یہ غم کی خبر ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو شہادت سے نوازا ہے تو یہ خوشی کی خبر ہوگی۔ میں نے کہا مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے تیرا ہدیہ اور قربانی کو قبول کر لیا ہے اور تیرا بیٹا شہید ہو چکا ہے۔ کہنے لگی کیا اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کر لیا؟ میں نے کہا ہاں قبول کر لیا۔ کہنے لگی شکر الحمدللہ! یہ میرا آخرت کا سرمایہ بن گیا ۔

پھر میں نے اس نوجوان کا پیغام اس کی بہن تک پہنچایا کہ سلامت رہو بہن، خدا حافظ قیامت میں ملاقات ہوگی، لڑکی نے جب یہ پیغام سنا تو ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر گر پڑی، میں نے جب اس کو ہلایا تو وہ مر چکی تھی میں نے لڑکے کے خون آلود کپڑے اس کی والدہ کے حوالے کیے اور زخمی زخمی دل اس گھر سے واپس لوٹ آیا مجھے اس عورت کے صبر پر اب تک تعجب ہو رہا ہے ۔

جب انسان اپنے اللہ سے دل لگا لیتا ہے تو اسے دنیا کی رونقیں سب بےقار معلوم ہوتی ہیں اور اس کی نظر میں صرف آخرت ہی رہ جاتی ہے۔ چنانچہ اس واقعہ سے ہمیں بھی یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی شہادت کی تمنا رکھیں اور دنیا کی محبت میں مصروف ہونے کی بجائے آخرت کی محبت کو سامنے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس واقعہ سے سبق اور سمجھ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین ۔

Categories